Tuesday, April 6, 2010

Saeeds Collection @03149001117....!




Tumhin Kis Nay Kaha Pagli
Mujhay Tum Yaad Aati Ho
Bohat Khush Faham Ho Tum Bhi
Tumharai Khush Gumani Hai


Meeri Ankhon Ki Surkhi Main
Tumhari Yaad Ka Matlab???????


Meeray Shab Bhar Kay Jagnay Main
Tumharay Khwaab Ka Matlab???


Yah Ankhien To Hameesha Say Hi
Meri Surkh Rehti Hain


Tumhin Malom Hi Hoga
Is Shahar Ki Faza Kitni Aloda Hai
Tu Yah Sozish,,ussi Fizza Kay Bayes Hai


Tumhin Kis Nay Kaha Pagli
Ka Main Shab Bhar Nhin Sota


Mujhay Is Nokri Kay Sab Jhameelon Say
Kabhi Fursat Milay To Tab Hai Na


Meeri Baaton Main Larzash Hai???
Main Aksar Kho Sa Jata Hon??


Tumhin Kis Nay Kaha Pagli
Mohabbat Kay Ilawa Aur Bhi To Dard Hotay Hain


Fikar-e-muaash,sukh Ki Tlaash,
Aisay Aur Bhi Gham Hain


Aur Tum
Un Sab Ghamon Kay Baad Aati Ho
Tumhin Kis Nay Kaha Pagali


Mujhay Tum Yaad Aati Ho
Yah Dunya Walay Pagal Hain


Zara Si Baat Ko Yah To Afsaana Samjhtay Hain
Mujhay Ab Bhi Yah Pagal Tera Dewana Samjhaty Hain


Tumhin Kis Nay Kaha Pagli!!!
Magar Shyed!!!!!!!


Magar Shyed Main Jhhota Hon
Main Raiza Raiza Toota Hon



 
 
Woh Shaks Mujhay Pyara Hai Us Se Kehna
Wohi Jeenay Ka Sahara Hai Us Se Kehna

Log Pyary Hain Bohot Sy Mujh Ko
Woh Sb Se Pyara Hai Us Se Kehna

Mohabbatain, Shikayatain, Adawatain Oski
Mujhy Sb Gawara Hai Us Se Kehna

Chahnay Wallay Aur B Hain Lekin
Hai Sirf Intezaar Tera Us Se Kehna

Doob Na Jaaon Chahat Kay Samandar Main
Wohi Hai Mera Kinaara Us Se Kehna

Zindagi Kr Di Usi Kay Naam Par
Wo Kr Ky Dekhy Ishara Us Se Kehna



اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری








کس قدر آگ برستی ہے یہاں

کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں

صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں
 


سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے 


ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے


دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے


یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے





اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں


یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں


زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں


دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں


اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں


آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں


مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں !


اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں


ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں


جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں


ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں


ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں


ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں









سنا ہے لوگ اُسے آنكھ بھر كے دیكھتے ہیں

سنا ہے لوگ اُسے آنكھ بھر كے دیكھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں


سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے بولےتو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں


نا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتےہیں



سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں


سنا ہےجب سے حمائل ہے اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں


سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کےدیکھتے ہیں


سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں


بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں


  وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں


بس اك نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل كا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر كے دیكھتے ہیں


سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں‌ ادھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں


کسے نصیب کے بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی درودیوار گھر کے دیکھتے ہیں


رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں


کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں


اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں








کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی
سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی
بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی
وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی
اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی
وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی
بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی
سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

 

Main Bhi Kitni Pagal Hoon Na
Sang Hawa K Urna Chahoon

Titli Ban Kar Nagri Nagri
Gulshan Gulshan Phirna Chahoon

Phooloon K Sab Rang Chura Kar
Chunri Apni Rangna Chahoon

Main Bhi Kitni Pagal Hoon Na!

Chandni Shab Ko Khunak Hawa Main
Chand Nagar Ko Jana Chahoon

Amber K Ik Ik Taarey Ko
Daman Main Bhar Lena Chahoon

Bhaag K Sarey Nanhey Jugno
Muthi Main Band Karna Chahoon

Main Bhi Kitni Pagal Hoon Na!

Kabhi Kabhi Un Nazroon K Main
Gongey Sapney Parhna Chahoon

Uss Ki Sochoon K Zeney Per
Nangey Pa'oon Main Charhna Chahoon

Janti Hoon Na-mumkin Hay Ye

Phir Bhi Kitni Pagal Hoon Main
Janey Kya Kya Karna Chahoon

Titli, Khushbo, Badal Ban Ker
Sang Hawa K Urna Chahoon

Main Bhi Kitni Pagal Hoon Na!




No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
www.e-referrer.com